’’بھائیو! کیا تمہارا اُونٹ کھو گیا ہے۔ سوداگر خوش ہوئے اور بولے تم نے دیکھا ہے کیا؟ فقیر نے کہا ’’کانا تو نہیں تھا اور دائیں پائوں سے لنگڑا تو نہیں تھا‘‘ ان سوداگروں کو یقین ہوگیا کہ اس نے اونٹ دیکھا ہے ‘ وہ کہنے لگے ’’بھائی یہ حقیقت ہے کہ وہ کانا اور لنگڑا تھا۔ مگر وہ گیا کہاں۔
اللہ کے واسطے بتادو میرا اونٹ کدھر ہے؟
ایک مرتبہ ایک فقیر کسی میدان سے گزر رہا تھا اسے سوداگر نظر آئے جو کوئی چیز تلاش کررہے تھے۔ اس نے سوداگروں سے پوچھا ’’بھائیو! کیا تمہارا اُونٹ کھو گیا ہے۔ سوداگر خوش ہوئے اور بولے تم نے دیکھا ہے کیا؟ فقیر نے کہا ’’کانا تو نہیں تھا اور دائیں پائوں سے لنگڑا تو نہیں تھا‘‘ ان سوداگروں کو یقین ہوگیا کہ اس نے اونٹ دیکھا ہے ‘ وہ کہنے لگے ’’بھائی یہ حقیقت ہے کہ وہ کانا اور لنگڑا تھا۔ مگر وہ گیا کہاں۔ فقیر نے اسی لہجے میں کہا ’’آگے والا دانت ٹوٹا ہوا تو نہیں تھا؟ سوداگر جلدی سے بولے ’’یہی جناب یہی۔ اللہ کے واسطے بتا دو۔ کہاں دیکھا تھا؟ فقیر نے ایک مرتبہ پھر اسی انداز میں کہا ایک طرف شہد کے ڈبے اور دوسری طرف گندم کی بوری لدی ہوئی تھی۔ اب دونوں کو یقین ہوگیا۔ کہنے لگے فقیر بابا! آپ جلدی سے ہمیں چل کر بتائیے کہ اونٹ کہاں ہے؟فقیر نے کہا ’’بھائی اگر سچ پوچھو تو میں نے تمہارے اونٹ کو نہ تو دیکھا ہے اور نہ اسکے بارے میں سنا ہے۔ میں ابھی تم دونوں سے سن رہا ہوں کہ تمہارا اونٹ کھو گیا ہے‘‘ سوداگر حیران ہوگئے اور سمجھے کہ وہ دھوکہ دے رہا ہے دھمکی دے کر کہنے لگے! اسی اونٹ پر دوسرے سامان کے ساتھ ہمارے جواہرات بھی رکھے ہوئے ہیں اگر نہیں بتائو گے تو تمہیں قید کرادیں گے۔
فقیر نے جواب دیا بھئی مجھے دھمکی نہ دو میں نے تمہارا اونٹ نہیں دیکھا اس پر سوداگر فقیر کو پکڑ کر قاضی کے پاس لے گئے۔ قاضی کو بھی فقیر نے وہی بات بتائی جب تم نے اونٹ دیکھا ہی نہیں تو اس کے بارے میں اتنی صحیح باتیں کیوں بتا رہے ہو۔ قاضی نے پوچھا۔ فقیر نے مسکرا کر کہا قاضی صاحب! میری بات سن کر آپ ضرور شک میں مبتلا ہوں گے۔ لیکن میں اب آپ کو حقیقت بتاتا ہوں جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو آنکھیں کھلی رکھتا ہوں ۔ آج صبح میں ایک جگہ سے گزرا تو میں نے دیکھا تو ایک اونٹ کے پیروں کے نشان تو موجود ہیں لیکن کسی آدمی کے پیروں کے نشان نہیں ہیں جس سے میں سمجھا گیا یہ اونٹ رسی تڑوا کر بھاگا ہے۔ پھر دیکھا تو ایک پائوں کے نشان تھے ہی نہیں اس سے معلوم ہوا کہ وہ لنگڑا ہے پھر کیا دیکھا کہ راستے کے ایک طرف گھاس چرنے کے نشان ہیں جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کانا ہے۔ دانت کے ٹوٹا ہونے کے علم اس طرح ہوا کہ اس نے جس پودے کو کھانے کی کوشش کی اس کے کچھ پتے باقی رہ گئے تھے اور سامان کا پتا اس طرح چلا کہ ایک طرف چیونٹیوں کی آمدورفت تھی جس سے معلوم ہوا کہ ایک طرف اناج ہے اور دوسری طرف شہد کی مکھیاں تھیں جس سے معلوم ہوا کہ وہاں شہد ضرور ہوگا‘‘قاضی یہ بات سن کے دنگ رہ گیا اور فقیر کو شاباشی دی۔ سوداگر بھی فقیر کے بتائے ہوئے راستے پر گئے اور اپنا کھویا ہوا اُونٹ پالیا۔(قاسم مجید‘ لاہور)
ایک کہاوت ’’نیم حکیم خطرہ جان‘‘
کسی علاقے میں ایک تاجر کپڑے کا کاروبار کرتا تھا۔ وہ دور دراز کے شہروں میں جاکر اپنا کپڑا بیچتا اور واپسی میں طرح طرح کی نئی چیزیں خرید لاتا تھا جنہیں وہ اپنے علاقے میں لاکر فروخت کردیتا۔ اس طرح اسے دور دراز علاقوں میں بھی جانا پڑتا۔ ایک بار وہ کسی علاقے میں مال بیچنے گیا۔ ا س نے ایک درخت کے ساتھ اپنا اونٹ باندھا۔ اور اس کے آگے خربوزے ڈال دیئے اورخود بھی کھانا کھانے لگا اچانک اونٹ کے گلے سے عجیب و غریب گھنٹی کی آوازیں آنے لگیں اونٹ کے گلے میں خربوزہ پھنس گیا تھا۔ تاجر نے دیکھا تو رو رو کے دہائی دینے لگا میرے اونٹ کو بچالو لوگ دوڑے اور گائوں کے ایک سیانے حکیم صاحب کو لے آئے انہوں نے اونٹ کو زمین پر لٹایا اور ایک اینٹ اسکی گردن کے نیچے رکھی اور دوسری اینٹ اسکی گردن کے اوپر رکھ کر آہستگی سے ماری جس سے خربوزہ ٹوٹ گیا اور اونٹ بالکل ٹھیک ہوگیا۔
اگلے سال شدید بارشیں ہوئیں تاجر کو اپنے شہر سے نکلنا دشوار ہوگیا۔ اس کے پاس جو جمع پونجی تھی وہ خرچ ہوگئی اس کے پاس کوئی ہنر بھی نہ تھا‘ بہت سوچ بچار کے بعد اس نے حکیم بننے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک دوکان بنائی اور چند جڑی بوٹیاں رکھ لیں اور لگا لوگوں کو اونٹ پٹانگ دوائیں دینے ان ہی دنوں شہر کا حاکم بیمار ہوگیا۔ اسے گلہڑ کا مرض لاحق تھا اس مرض میں گلا پھول جاتا ہے اس وقت یہ مرض لاعلاج سمجھا جاتا تھا لہٰذا شہر میں ڈھنڈورا پٹوادیا کہ جو کوئی بھی اس کا علاج کرے گا اسے بھاری انعام دیا جائے گا۔ جب نیم حکیم یعنی تاجر نے یہ اعلان سنا تو اسے اپنے اونٹ کے ساتھ پیش آنے والا پچھلے برس والا واقعہ یاد آگیا اس نے اعلان کیا وہ حاکم شہر کا علاج کرے گا۔ لوگ حیران رہ گئے پورے شہر میں صرف اسی کے پاس یہ علاج تھا۔ آخر وہ حاکم کے گھر حاضر ہوا وہاں اور بھی لوگ بیٹھے تھے۔ نیم حکیم نے حاکم شہر کو لٹایا۔ ایک اینٹ ا س کی گردن کے نیچے رکھی اور دوسری اینٹ اوپر سے دے ماری۔ اس کےبعد پھر کیا ہوا آپ سمجھ سکتے ہیں ظاہر ہے حاکم شہر جان سے گئے۔ مجمع میں سے کسی نے بلند آواز سے کہا ’’نیم حکیم خطرہ جان‘‘ اسکے بعد نیم حکیم کے ساتھ جو ہوا سوہوا مگر یہ کہاوت مشہور ہوگئی اب جب بھی کوئی اناڑی مہارت کا کام کرنے لگے تو یہی کہاوت کہی جاتی ہے۔(مہرالنساء‘ حیدرآباد)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں